Breaking News
recent

الطاف مافیا اور لیاری گینگ وار۔ چوتھی قسط۔ تحریر۔ حبیب جان

الطاف کی متحدہ اور لیاری گینگ وار.
بلوچوں نے اپنے حصہ میں آئیں ہوئی جائیدادیں مہاجرین کے حوالے کردیں۔
قسط نمبر چار
تحریر:- حبیب جان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیاری جس کی آبادی کی اکثریت بلوچوں کے علاوہ خوجہ، پارسی اور ہندو بنیوں جو سمندری زرائع نقل و حمل کی تجارت سے منسلک تھی کُل ملا کر تقریباً دو لاکھ ساٹھ ہزار کے قریب تھی۔ ۱۹۴۷ میں جب ہندوستان کی تقسیم سے جب پاکستان معروض وجود میں آگیا تو ہندوؤں تاجروں کی اکثریت اپنے ہرے بھرے گھر اور کاروبار لیاری میں آباد بلوچ برادری کے حوالہ کر کے بھارت کی طرف ہجرت کر گئے۔ اب ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ جن بلوچوں کے ہاتھ جو مال غنیمت حادثاتی طور پر لگا تھا وہ ان پر قابض ہوجاتے لیکن یہ حقیقت آج بھی روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ لیاری کے اُس وقت کے بلوچ اور آج ان کی اولادیں بھی قناعت پسند اور ہر حال میں شکر خدا وندی ادا کرنے والے لوگوں میں شامل رہیں ہیں۔

جُوں جُوں مہاجرین کے قافلہ سندھ کے کونے لیاری میں داخل ہوتے جارہے تھے یوں یوں مہمان نوازی اور اپنے آنے والے نئے مہاجرین بھائیوں کے استقبال کے فقیدالمشال جزبہ نظر آرہے تھے۔ جہاں اندرون سندھ میں آباد مقامی سندھیوں نے مہاجرین کو خوش آمدید کہا وہی اہلیان لیاری نے بھی اپنی بھرپور روائتی مہمان نوازی کا مظاہرے کرتے ہوئے اپنے حصہ میں آئیں ہوئی ہندوؤں کی جائیدادیں اور ان کے ہرے بھرے گھر نئے آنے والے مہاجرین کے حوالے کردئیے۔ آج بھی کھارادر، مٹھادر، رنچھولائن، سولجر بازار، پارسی کالونی کی بڑی بڑی بلڈنگیں اور محلات نما بنگلہ جیتے جاگتے ثبوت ہیں۔

آج ستر سال گزر جانے کے بعد بھی اہلیان لیاری اپنی ۸۰ اور ۱۰۰ گز کی زمین پر چند منزلہ عمارتیں بناکر چھوٹے چھوٹے کمروں میں رہ کر قناعت پسندی اور صبر و شکر کی اعلی مشال بنے ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ بلڈنگیں کسی ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے دئیے گئے قرضہ سے نہیں بلکہ دیار غیر جس میں دبئی مسقط بحرین قطر اور سعودیہ میں نوجوانوں نے مزدوریاں کر کے تعمیر کیں۔ یہاں پر میں اس زمانے کے ناخداؤں کو ضرور خراج عقیدت پیش کروں گا جو اپنی لانچوں پر لیاری کے نوجوانوں کو زیادہ تر دبئی اور دیگر گلف ممالک میں چھوڑ آتے تھے۔ آج لیاری میں جو خوشحالی اور بڑی بڑی بلڈنگیں نظر آتی ہیں اس میں زیادہ تر حصہ ہمارے ان نوجوانوں کی محنت مزدوری کا ہے جو انہوں نے دیار غیر میں دن رات ایک کر کے حاصل کیا۔

جبکہ یہ باتیں بھی حقیقت پر مبنی ہیں اور معروف ڈرامہ نویس اور مزاح نگار انور مقصود نے اپنے ایک مزاحیہ ڈرامہ میں ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجرین کی ہندوستان میں جائیدادوں سے متعلق حقائق اور کراچی میں جھوٹے کلیم اور قبضوں اور ایک بلوچ کے جُوتے کے کارخانہ کو قبضہ کرنے اور صدر میں ایک دکان کے قبضہ کا قصہ انتہائی خوبصورتی سے فلم زد کیا ہے۔ اسی طرح جب ۱۹ جون ۱۹۹۲ کے کراچی آپریشن اور ایم کیو ایم (حقیقی) کے وجود میں آنے کے بعد جب الطاف مافیا نے اپنے ہی مہاجر اردو بولنے والوں پر زمین تنگ کردی گئی تو اس وقت بھی اہلیان لیاری نے ان حقیقی کے اردو بولنے والوں کو کئی سالوں تک اپنا مہمان بنائے رکھا۔ یہ الگ بات ہے اس مہمان نوازی کو آفاق احمد خان نے آج تک نہیں سراہا ہاں البتہ دوسرے گروپ الطاف نے اس مہمان نوازی کی سزا اہلیان لیاری کو اس کے نوجوانوں کو بوری بند لاشوں کی صورت میں خوب دی۔

اہلیان لیاری جنرل یحیی خان کے دور حکومت تک صرف اپنے زور بازو اور اپنی محنت کے بل بوتے پر زندگی کی گاڑی کھینچتے رہے سرکاری نوکری تو کجا اس کا تصور بھی نا ممکنات میں سے تھا۔ سمندری وسائل سے حاصل فشری ایک بڑا زریعہ روزگار تو دوسرا دبئی اور دیگر گلف ممالک کی بڑھتی معاشی ترقی میں حاصل روزگار کے مواقعوں نے زندگی کو رواں دواں رکھا ہوا تھا۔ ۱۹۷۱ کے بعد پاکستان میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے معروض وجود میں آنے کے بعد اہلیان لیاری کے دن کسی حد تک تبدیل ہوئے عام آدمی کو پاسپورٹ تک رسائی ملی اور سرکاری نوکریوں پر اشرافیہ کا کنٹرول کسی حد تک کم ہوا۔

حکومتی پالیسیوں اور اس وقت کے وفاقی وزیر عبدالستار گبول کی کاوشوں کے سبب اہلیان لیاری کے نوجوانوں کو حکومتی اداروں جن میں کراچی پورٹ ٹرسٹ، پی آئی اے، بلدیہ کراچی سمیت دیگر اداروں میں ملازمتیں ملیں۔ اسی طرح پاسپورٹ کے حصول کے بعد ہمارے لوگ مشرق وسطی کے ممالک اب جائز طریقوں سے جانے لگے دوسری طرف ہمارے تجربہ کار ملاح بحری جہازوں پر بحیثیت سی مین بھرتی ہوئے۔ ہمارے لیاری کے لوگ کل بھی جفاکش اور آج بھی محنت مزدوری کو اپنی شان و عظمت تصور کرتے ہیں۔ یہ بھی قابل فخر بات ہے کہ ہمارے لوگ کئی دہائیوں تک سمندر پر حکمرانی کرتے رہے لیکن کسی بھی سی مین یا ملاح سے دنیا کے کسی بھی سی پورٹ پر کوئی منشیات کی اسمگلنگ کا الزام نہیں لگا جبکہ آج کل ہر دوسرے دن قومی پرچم بردار ائیرلائن کے اسٹاف سے امریکہ فرانس اور برطانیہ کے ہوائی اڈوں پر منشیات برآمد ہوتی ہیں۔ جاری ہے



from Pakistani Talk Shows, Pakistan Latest News, Breaking News Pakistan https://ift.tt/2FB3h1F
via

No comments:

Powered by Blogger.