Breaking News
recent

الطاف مافیا اور لیاری گینگ وار۔ تیسری قسط۔ تحریر۔ حبیب جان

الطاف کی متحدہ اور لیاری گینگ وار
رحمن بلوچ ڈکیت نہیں ایک درمند غریب پرور غیرت مند انسان تھا۔
تیسری قسط
تحریر:- حبیب جان لندن
————————————————————————————-
رحمن ڈکیت کا نام سنتے ہی آپ کے ذھن میں ایک ایسا کردار جو خوف اور دہشت کی علامت کے طور پر جانا جاتا تھا۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ لیاری ہمیشہ سے چھوٹے موٹے جرائم پیشہ گروپ کی آمجگاہ بنا رہا اور پولیس ان تمام گروپ کی نہ صرف سرپرستی کرتی رہیں بلکہ ان کو بڑھاوا دینے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتی رہی۔ عبدالرحمن بلوچ کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جو ایوبی دور آمریت میں اپنا اچھا خاصہ سیاسی اثر و سوخ رکھتا تھا۔ رحمن کے والد اور چچا اس وقت کے مسلم لیگی خاندان ہارون فیملی کے انتہائی قریبی ترین ساتھیوں میں سے تھے۔

آج بھی افشانی گلی میں 60 کی دھائی میں قائم کئے گئے اسکول مدارس اور بلوچ ویلفئیر کمیونٹی ہال جیتے جاگتے ثبوت ہیں جو رحمن کے والد کی کاوشوں سے پایہ تکمیل کو پہنچے تھے۔ رحمن کو رحمن ڈکیت اور پھر سردار رحمن بلوچ بننے میں کن کن مراحل سے گزرنا پڑا اور ان تمام چیزوں کے پیچھے کیا محرکات تھے۔ جیسا کہ اوپر زکر کیا گیا کہ لیاری ہمیشہ سے چھوٹے موٹے جرائم کی آمجگاہ بنا رہا اور یہ سب کچھ پولیس کی سرپرستی اور حکومتوں کی چشم پوشی کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ لیاری آزادی سے قبل ہی حریت پسندوں اور جمہوریت سے محبت کرنے والوں کی بستی کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا تھا۔ حریت پسند رہنما مولانا مُحّمد علی اور مولانا شوکت علی سمیت تحریک آزادی پاکستان کے روح رواں حضرت قائداعظم و دیگر کئی بڑے نام لیاری سے تعلق رکھتے تھے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اہلیان لیاری سیاسی شعور کی معراج پر آج سے نصف صدی پہلے اس جگہ پر تھے جہاں پہنچنے کیلئے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو تین بار وزارت عظمی سے فارغ ہونا پڑا۔ بہرحال بات ہورہی تھی شہید رحمن بلوچ سے میری پہلی ملاقات کچھ زیادہ اچھی نہیں تھی جب ہم لندن سے جلاوطنی ختم کر کے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ 18 اکتوبر 2007 کو کراچی پہنچے تھے اس وقت تک رحمن بلوچ ڈکیت کی عرفیت سے خوف اور دہشت کی علامت کے طور پر نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان بھر میں اپنی شناخت منوا چکا تھا۔ جنرل مشرف اقتدار پر قابض تھے متحدہ اور الطاف سے جنرل صاحب کا بڑا یارانہ تھا۔ معاشی حب کراچی الطاف مافیا کے رحم و کرم پر تھا کارخانے دار سے لے کر پرچون دکاندار بھتہ دینے پر مجبور تھے۔ چیمبر آف کامرس سے لے کر اسٹاک ایکسچینج سب کے سب یرغمال تھے آزاد میڈیا پورے پاکستان میں آزادی اور فریڈم کا راگ الاپنے میں مصروف تھا سوائے کراچی کے۔ الطاف کی مرضی کے بغیر کوئی خبر اسکرین کی زینت نہیں بن سکتی تھیں۔

رحمن بلوچ سے پہلی ملاقات کا تفصیلی زکر آنے والی میری کتاب “جے آئی ٹی آف حبیب جان” میں پڑھئیے گا۔ پہلی ملاقات کے بعد کچن کابینہ یعنی قریبی دوستوں کے سامنے رحمن بلوچ سے ملاقات کے منفی اور مثبت پہلو رکھے رحمن بلوچ کی چند ایک خصوصیات جو میں نے محسوس کی تھی اس پیرآئے میں دوستوں کو اعتماد میں لیا میں یہاں اپنے تمام دوستوں کا جو آج بھی ہماری کچن کابینہ کا حصہ ہے مشکور ہوں جن کا اعتماد میرے لئے کل بھی انعام تھا اور آج بھی ایک بڑا اعزاز ہے۔ اب ایک ایسا فیصلہ ہم لے چکے تھے جس کے اثرات براہ راست پاکستان کے معاشی حب کراچی کی سیاست کے ساتھ ساتھ میرے سیاسی کیرئیر پر پڑنے والے تھے۔ تمام کشتیاں جلانے کے بعد اب ہم ایسا کچھ کرنے جا رہے تھے جو کوئی عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ کراچی جن لوگوں کے رحم و کرم پر تھا وہ کراچی پر مکمل قبضہ چاہتے تھے۔ سندھ کے وڈیروں اور جاگیرداروں سمیت پاکستان کی اسٹبلشمنٹ نے مکمل طور پر الطاف کے آگے بیعت کرلی تھی۔ شہر میں آباد تمام کمیونٹی کے لوگ بندوقوں کے نشانے پر جبکہ سڑکیں اور ہر دوسرے گھر کی در و دیواریں لہو لہان تھیں۔ ایسے میں واحد علاقہ لیاری تھا جو الطاف کے شفاک درندوں کے آگے مزاحمت کی علامت بنا ہوا تھا۔ جاری ہے۔



from Pakistani Talk Shows, Pakistan Latest News, Breaking News Pakistan https://ift.tt/2FpDMAb
via

No comments:

Powered by Blogger.